ناشکرے انسان سے رب کا مکالمہ

نحنُ خلقناکم فلو لا تصدقون ؟
ھم نے تمہیں بنایا اور تم ھی ھماری بات پر اعتبار نہیں کرتے،نہ ھماری بات کو سچ سمجھتے ھو اور نہ اس کی تصدیق کرتے ھو ! ویسے کمال کرتے ھو !
تم جیسا جھگڑالوُ تو پوری مخلوق میں نہیں ھے،، اور ناشکرا تو تــُــو کمال کا ھے ! ھم نے تمہیں صدیوں امانت کے طور پہ سنبھالے رکھا،جہاں بھی تمہیں شفٹ کیا وھیں تیرا خاص خیال رکھا جیسے ھمیں تیرے سوا کسی سے دلچسپی ھی نہیں ! زیادہ دور نہ جا ،، ھاں صدیوں پیچھے نہ جا صرف تیرے پردادا سے تمہیں شروع کرتے ھیں،، ھم نے تیرے پردادا کو اس وقت تک مرنے نہیں دیا جب تک تمہیں اس سے نکال کر آگے منتقل نہیں کر دیا ! تیرے پردادا کو تو بیماری سے مار دیا مگر تمہیں اس بیماری سے بچا لیا ،پھر تیرے دادا کو ھم سنبھالے سنبھالے پھرتے تھے کہ اس میں میری ایک امانت ھے ،، اسےھر حادثے سے بچائے رھے تا آنکہ تجھے اس میں سے بچا نکالا اور آگے منتقل کر دیا ! اور تیرے باپ میں بھی ھم تجھ پر نظر رکھے رھے کہ کہیں تو کھو نہ جائے ،تجھے کچھ ھو نہ جائے !
تــــــُــو پیدا ھو گیا !
قتل الانسانُ مآ أکفــــــرہ ! من ای شئً خلقہ ؟ من نطفہ !
مارا جائے یہ انسان ،،’گولہ لگے اسے” یہ کتنا ناشکرا ھے !
کس چیز سے اسے بنا کھڑا کیا؟ نطفے سے !
چلـــــــو تمہیں اس کی یاد نہ ھو گی مگر جو تجھ سے نکلتا ھے اسے دیکھا ھے ؟
اَفَرایتم ما تمنون ؟ جو تم ٹپکاتے ھو ،اسے تم دیکھتے ھو ناں ؟
پھر اس میں سے جو ھم بنا کھڑا کرتے ھیں وہ بھی دیکھتے ھو ناں ؟
یہ کون بناتا ھے تم یا میں ؟؟ تم تو اسے ھاتھ لگانا پسند نہیں کرتے !
تم تو اس سے کراھت کرتے ھو ! اسے بے وقعت گندگی اور فضول چیز سمجھتے ھو ! اس بے وقعت کو قیمتی کون بناتا ھے ،،میں کہ توُ ؟ اس مکروہ کو پسندیدہ کون بناتا ھے،،میں یا تُو؟؟ جس سے تو نفرت کرتا تھا اس میں سے محبوب بنا کر کون کھڑا کرتا ھے ؟ جسے تو چھونا پسند نہیں کرتا تھا ،اس میں سے چومنے چاٹنے والا کون پیدا کرتا ھے،،؟؟
پھر بھی تو ھمارا اعتبار نہیں کرتا،،ھمارے وجود کی گواھی نہیں دیتا ،تو گلی گلی چوک چوک ھمارے تذکرے نہیں کرتا ،وہ گواھی جو تو نے عہدِ الست میں دی تھی وہ تیرے پاس ھماری امانت تھی اس امانت کی خاطر ھم نے تجھے بھی امانت سمجھ کر تجھے صدیوں سنبھال سنبھال کر رکھا اور جب گواھی دینے کا وقت آیا تو ،تو نے صاف کہہ دیا کہ ،، ان ھی الا حیاتنا الدنیا نموت و نحیا وما نحن بمبعوثین،،یہ دنیا کہ زندگی خود بخود ھے ھم خود ھی جیتے ھیں اور خود ھی مر جاتے ھیں اور ھمیں دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا !( المومنون 37 )
قتل الانسان مآ اکفرہ ! مارا جائے یہ انسان یہ کتنا ناشکرا ھے !
جو پانی تم پیتے ھو کبھی اسے سوچ کی نظر سے بھی دیکھا ھے ؟
اسے بادلوں سے ھم برساتے ھیں یا تم ؟ اگر ھم چاھئیں تو اسے کھارا بنا دیں ،پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے ؟ اب اسے کہاں سے اٹھاتے ھیں کیسے بہاتے ھیں باقی کو پہاڑوں پہ برسا کر محفوظ کرتے ھیں پھر اسے تیرے پیچھے پیچھے بھیجتے ھیں ، دریا پاس نہ ھو تو ھم اسے زمین کی رگوں میں دوڑا کر تیرے گھر کے پاس لاتے ھیں کہ تو اسے کنوئیں سے کھینچ لے !
جو تم مٹی میں دبا کر گھر لوٹ آتے ھو ،اسے کون اگاتا ھے اور تیرے پیچھے بوریاں بھر کر بھیجتا ھے ،، ؟ اگر ھم چاھتے تو اگنے سے پہلے اسے مار دیتے اور تو دُھائیاں دیتا پھرتا کہ میں برباد ھو گیا میری تو اصل بھی ضائع ھو گئ مجھے تو چَـٹی پڑ گئ !
تم اپنے آپ کو تو نہیں بھولے، اپنے خالق اور پالنے والے کو کیسے بھول گئے؟ ما غرک بربک الکریم ؟ اپنے رب کریم کو کیسے بھولے؟ کس نے بھلا دیا ؟ تجھے اپنی ذات یاد ھے پھر اس ذات کو بنانے والا کیونکر بھول گیا؟ تجھے عارضی پتہ یاد ھے تو مستقل پتہ کیسے بھول گیا؟ ھم نے تجھے تین اندھیروں میں سب سے چھپا کر بنایا اور صلاحیتوں سے اس طرح بھر دیا جس طرح شہد کا چھتہ شہد سے بھرا ھوتا ھے،، ھم ھی تیرا باعزت حوالہ ھیں،، تو دوسری نسبتوں سے اپنے کو باعزت ثابت کرنا چاھتا ھے ! ھم نے تجھے بھیجا، اپنے کام سے بھیجا کہ ھماری ھستی کی دھوم مچا دو دنیا میں اور پھر تمہیں ھمارے پاس آ کر جوابدھی کرنی ھے کہ ھمارے وجود کی گواھی دے کر آئے ھو یا تم بھی جا کر مخالف پارٹی سے مل گئے تھے اور ھمارے ھی خلاف گواھی دے آ ئے ھو ،،؟