مجرموں کی نفسیات

نظامی صاحب اور کتاب کے مصنف کا زور اس بات پر ھے کہ جب اللہ پاک بنی اسماعیل یعنی مکے والوں کے اس عذر کو قبول کرتا ھے کہ وہ کتابیں جو پہلی دو قوموں یعنی یہود اور نصاری کے لئے نازل ھوئیں ،یعنی تورات اور انجیل تو چونکہ وہ ھماری زبان میں نہیں لہذا ھم ان پر ایمان نہیں لا سکتے ،، اس کے لئے اس مذکورہ کتاب میں بھی اور خود نظامی صاحب کے کمنٹس میں بھی مختلف آیات کو کوٹ کیا جاتا ھے ،،
1- مثلاً سورہ الانعام کی آیت نمبر 156– اَن تَقُولُواْ إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَى طَآئِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ (156) أَوْ تَقُولُواْ لَوْ أَنَّا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ” یہ برکت والی کتاب تم پر نازل کی گئ ھے پس اس کی پیروی کرو اور تقوی اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے،،،یہ کتاب اس لئے ( تمہاری زبان میں ) نازل کی گئ ھے مبادا تم کہو کہ ھم سے پہلوں پر تو ان کی زبان میں کتاب نازل کی گئ تھی اور ھم تو ان کی سمجھ بُوجھ سے غافل تھے ، یا یہ کہو اگر اتاری جاتی ھم پر کتاب ( ھماری زبان میں ) تو ھم ھوتے ان (یہود و نصاری) سے زیادہ ھدایت یافتہ ،،،، پس آ گئ ھے واضح کتاب جو ھدایت و رحمت ھے ،،
2- وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ .. ( فصلت -44)
اگر ھم بناتے اسے قران عجمی تو یقیناً یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات تفصیل سے کھول کر کیوں نہیں سمجھائی جاتیں ؟ کیا قرآن عجمی اور مخاطب عربی ؟ کہہ دیجئے کہ وہ ایمان لانے والوں کے لئے تو ھدایت اور شفا ھے ، اور جو ایمان نہ لانے والے ھیں ان کے کانوں میں ڈاٹ ( ثقل ) اور وہ ان کے لئے اندھا پن ھے ، یہ لوگ بڑی دور سے پکارے جائیں گے !
3- «ولو نزلناه علی بعض الاعجمین فقراه علیهم ماکانو به مومنین» ( الشعراء 198 ) کذالک سلکناہ فی قلوب المجرمین -199
اگر ھم اسے نازل کرتے عجمی رسول پر چنانچہ وہ انہیں پڑھ پڑھ سناتا تو وہ کبھی ایمان نہ لاتے ،،،
یہ ھے ان لوگون کا اعتراض کہ جب عربوں کے لئے غیر عرب زبان کا قرآن تعجب انگیز بات ھے تو غیر عربوں کے لئے عربی قرآن کیوں تعجب انگیز بات نہیں ؟ کیوں ھمیں عربی قرآن پر ایمان لانے پر اصرار کیا جا رھا ھے ، جبکہ عربوں کے اعتراض کو Valid مان کر ان کے لئے عربی میں قرآن نازل کیا گیا ،،،،،،،،،،
بظاھر قوی اور معتبر نظر آنے والے یہ اعتراضات انتہائی بودے ھیں ، اللہ پاک مجرم دلوں کی نفسیات کو کھول کھول کر بیان کر رھے ھیں کہ وہ کس قسم کے اوٹ پٹانگ اعتراضات کرتے ھیں ،
ھر قوم میں اس قوم کی زبان بولنے والا انہی کی قوم کا نبی مبعوث کیا جاتا ھے ، یہ اللہ کی سنت ھے !
{ وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبین لھم}،،، ھم نہیں بھیجتے کوئی نبی مگر اسی قوم کی زبان میں ، پھر کیا اس کے نتیجے میں واقعی سارے لوگ اپنے ھم زبان نبی پر ایمان لے آتے ھیں ؟ آیت کے اگلے حصے میں فرما دیا کہ اس کے باوجود جو بھٹکنا چاھتے ھیں اللہ انہیں بھٹکنے دیتا ھے زبردستی ھدایت نہیں دیتا ، اور جو ھدایت کا طلبگار ھوتا ھے اسے ھدایت دے دیتا ھے – گویا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں کے اعتراض کے بعد دوسرے نبی کو ھٹا کر نہیں لایا گیا ، اور نہ ھی عربوں کے اعتراض پر قرآن کی زبان تبدیل کر کے عربی میں نازل کرنا شروع کیا ھے ،، بات صرف اتنی ھے کہ اے عربو ،،، تمہارے پاس کوئی عذر موجود نہیں ھے ،، یہ جو بات کہہ رھے ھیں تم اس کو بڑی اچھی طرح سمجھ رھے ھو ، اس نبی ﷺ کے کردار و سیرت سے تم آگاہ ھو ، کہنے کو تم یوں بھی کہہ سکتے تھے اور یوں بھی کہہ سکتے تھے ،مگر ھم نے تمہارے لئے کہنے کو کچھ نہیں چھوڑا تا کہ تم پر حجت تمام ھو جائے ،، رہ گئے وہ لوگ جو ایمان نہیں لانے والے تو ان کے لئے اگر ھم فرشتے خود ان پر نازل کرنا شروع کر دیں اور مردے زندہ ھو کر ان سے باتیں کرنا شروع کر دیں ، اور ھم ان کے سامنے حشر بپا بھی کر دیں تب بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے ، ( ولوا اننا نزلنا علیھم الملائکہ،،) اگر قرآن ھم ورق ورق ( پرنٹ آؤٹ نکال ) کر کے نازل کریں چنانچہ یہ اس کو اپنے ھاتھوں سے چھُو کر چیک کر لیں تو کفر کرنے والے پھر بہانہ کر دیں گے کہ یہ تو جادو ھے ،،
اگر ھم ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیں اور یہ اس کے رستے آسمان پر چڑھ آئیں پھر بھی کہیں گے کہ در حقیقت ھماری نظر بندی کر دی گئ تھی، بلکہ ھم پر جادو کر دیا گیا تھا ،،
اگر تو اللہ پاک ان اعتراضات پر ان لوگوں کی تعریف کرتا پھر تو کہا جاتا کہ اللہ نے ان کے اعتراض کے جواب میں عجمی رسول تبدیل کر کے عربی لگایا ھے ،، اور عجمی کتاب تبدیل کر کے عربی بھیجنا شروع کی ھے ، آیت نمبر 198 کا اعتراض تو ان لوگوں نے کوٹ کر دیا ،، مگر اگلی ھی آیت میں اللہ کا دیا گیا جواب کوٹ کرتے ھوئے ان کے ھاتھ کانپ گئے ،، کذلک سلکنٰہ فی قلوب المجرمین ،، لا یومنون بہ حتی یروا العذاب الالیم ،،اس قسم کے اعتراضات ھم مجرموں کے دلوں میں ترازو کر دیتے ھیں کہ وہ انہی میں غلطاں و پیچاں رہ کر ایمان نہیں لاتے یہانتک کہ دردناک عذاب انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ھے ،، یہ مجرموں کی نفسیات ھے اور اس میں قیامت تک تبدیلی آنے والی نہیں ھے ،، وہ عتبہ ،شیبہ ، ربیعہ ،ولید ابن مغیرہ ھوں یا ایاز نظامی ، غلام رسول یا اور کوئی ،،، ان اعتراضات کا مقصد سمجھنا نہیں بلکہ بھٹکنا اور بھٹکانا ھے !
سوال یہ ھے کہ جب اللہ نے مکے والوں کے اعتراضات کو انٹرٹین کرتے ھوئے رسول اور کتاب عربی بھیج تو کیا مکے والے ایمان لے آئے ؟ جو اگر قرآن اردو یا پنجابی میں آئے گا تو نظامی صاحب اور غلام رسول صاحب ایمان لے آئیں گے ؟؟ اگر تو ایسا ھوتا کہ کتاب و نبی عربی ھوتے ھی عربوں نے سرِ تسلیم خم کر لیا ھوتا تو نظامی لوگوں کے اعتراض کو Valid سمجھا جا سکتا تھا کہ اگر کوئی پاکستانی نبی اردو قرآن لے کر آتا تو یہ بھی ایمان لے آتے ! جہاں بھی اللہ پاک نے اس قسم کا اعتراض کوٹ کیا ھے وھیں اس کا جواب بھی دیا ھے ،، أاعجمیۤ و عربی ،، والی آیت ان لوگوں نے آدھی کوٹ کی ھے حالانکہ اسی آیت کے آخری حصے میں ھی جواب دے دیا گیا ھے ،،کہ اے نبی جواب دیجئے کہ ایمان والوں کے لئے تو وہ راہ کھانے والا بھی ھے اور سینے کے وساوس کا شافی علاج بھی ھے ، البتہ جن لوگوں نے ایمان لانا ھی نہیں ھے، ان کو ثقلِ سماعت کا مرض ھے ، انہیں قرآن سنائی ھی نہیں دیتا اور وہ ان کے اندھے پن میں اضافے کا سبب ھی بنتا ھے ( جس طرح بارش اچھی زمین کے لئے تو مفید ثابت ھوتی ھے مگر سیم و تھور کا شکار زمین کو مزید دلدل کا شکار کر دیتی ھے ، جو کھانا صحتمند آدمی کی قوت میں اضافے کا باعث بنتا ھے وھی کھانا ھیضہ زدہ کی موت کا سامان کرتا ھے )
کتاب کے مصنف اور ایاز نظامی صاحب کا سارا زور اس پر ھے کہ ترجموں سے اتمامِ حجت نہیں ھوتا ،، اور قرآن ان کے دعوؤں کی نفی کرتا ھے ،، قراں خود ترجمے سے بھرا پڑا ھے ،، موسی علیہ السلام اور رب کے مکالمے ،، موسی علیہ السلام اور جادوگروں کے مکالمے ، موسی و فرعون کے مکالمے سارے کے سارے عبرانی و سریانی زبانوں میں تھے عربی میں نہیں تھے ، اللہ نے ان کا ترجمہ عربی میں کیا ھے جسے عربی قرآن کہا جاتا ھے ، اسی لئے جہاں جو چاھا اس میں سے حذف کیا اور جہاں چاھا اضافہ کیا ،،کہیں انہیں سحار کہا تو کہیں ساحر کہا ،، کہیں ” و القی ” کہا تو کہیں فألقی کہا ،، اسی طور زکریا علیہ السلام اور مریم کے مکالمے، سورہ القصص ، سورہ سبا ، سورہ نمل ، سورہ الشعراء ، سورہ طہ ،سورہ مریم یہ سارے کے سارے دیگر زبانوں میں کیئے گئے مکالموں کے عربی ترجمے ھیں جو اللہ پاک نے عربی زبان میں بیان کیئے ھیں ،، اب ایک طرف عربوں سے ان پر ایمان لانے کو کہا جا رھا کہ ایمان لاؤ کہ یہ مکالمے اسی طور ھوئے تھے ، دوسری طرف اھلِ کتاب سے اپنی کتاب چھوڑ کر اس عربی کتاب کے بیان کردہ حقائق پر ایمان لانے کا مطالبہ ھے کیونکہ تمہاری اپنی مادری زبان کی تورات میں بہت کچھ چھپا لیا گیا ھے جسے ھم اس نبی کی زبان سے کھول کھول کر بیان کر رھے ھیں ، يا أهل الكتاب قد جاءكم رسولنا يبين لكم كثيرا مما كنتم تخفون من الكتاب ويعفو عن كثير قد جاءكم من الله نور وكتاب مبين ( المائدہ 15) یوں قرآن حکیم سابقہ کتب کی تعلیمات کا مھیمن یعنی بیک اپ فائل ھے ،، جس میں قیامت تک کسی بھی تحریف کا امکان نہیں !
کرنے کو تو کونسا اعتراض ھے جو مکے والوں نے نہیں کیا ؟ ؟ فرشتہ ھم پہ نازل کیوں نہیں ھوتا ،، تو کیا اللہ نے ان پر فرشتہ نازل کرنا شروع کر دیا ؟ لو لا نزل ھذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم ،، ،، یہ قرآن دو بستیوں یعنی مکہ اور طائف میں سے کسی عظیم شخص پر نازل کیوں نہیں ھوتا ؟ تو کیا اللہ نے رسول تبدیل کر دیا تھا ،، ؟؟