فرشتے اور ابلیس


عقلی طور پر پہلا اعتراض فرشتوں نے کیا تھا اور عقل پہ تولا جائے تو ان کا اعتراض آج بھی اپنی جگہ درست ھے اور اللہ پاک نے قرآن میں بھی ان کو یہ نہیں کہا کہ تمہارا اعتراض غلط ھے ! نہ کوئی غصہ کیا ،، بلکہ بڑے پیار سے کہہ دیا کہ میں جو بات جانتا ھوں تم نہیں جانتے ( اور جان سکتے بھی نہیں کہ میں تمہیں سمجھاؤں،آخر 5 یا 7 سال کے بچے کو کوئی کیسے سمجھائے کہ بلوغت کیا ھوتی ھے ؟؟ اگر تم سمجھ سکتے تو مجھے پھر اس کو بنانے کی ضرورت نہیں تھی،، یہ وکھری ٹائپ کی مخلوق ھے، میں اسے بھاگ جانے کا اختیار دوں گا مگر یہ پھر بھی میرے ساتھ ساتھ چلے گا،، تمہارے اندر لالچ کا کوئی عنصر نہیں ھے، جبکہ میں اسے سر سے پاؤں تک لالچ میں ڈبو دوں گا، پھر کوئی اس کے اندر کی لالچ کو ھوا دے کر مجھ سے دور لے جانے کی کوشش کرے گا،، مگر یہ پلٹ پلٹ کر واپس آیا کرے گا،، اور میں اسے پھر سے سینے لگا لیا کروں گا،، یہ بچے میری خاطر قربان کرے گا،،تمہارے بچے نہیں تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ بچے کیا ھوتے ھیں؟ میں اس کا بچہ ماروں گا پھر بھی یہ مجھ سے محبت کرے گا،،) اس لئے یہ کہنا کہ اللہ نے ان کی تعریف کی درست نہیں ھے ! اللہ نے بغیر کسی تعریفی جملے کے صورتِ واقعہ بیان کر دی کہ ،فسجد الملائکہ کلھم اجمعون،، سارے فرشتے اجتماعی طور پر سجدے میں چلے گئے ،، مگر ابلیس چونکہ جنات میں سے تھا لہذا رب کے حکم کا انکار کر بیٹھا ! کان من الجن ففسق عن امر ربہ ! فرشتے اور ان کے تابع تمام نوامیس کو انسان کی تحقیق کی لیبارٹری کے سپرد کر دیا گیا اور ان کو اس کے لئے نتائج دینے کا پابند کر دیا ! ابلیس اپنی عبادت کی نسبت سے فرشتوں میں سے ھی گنا جاتا تھا کیونکہ اس کا زیادہ تر وقت فرشتوں میں ھی گزرتا تھا،، اس لئے وہ اس حکم کے تابع تھا، اور اس وجہ سے بھی کہ یہ حکم اصلاً پوری کائنات کے لئے تھے اور وہ بھی اسی کائنات کا حصہ تھا ! شریعت میں یہ بات نرالی نہیں،قرآن میں جگہ جگہ مردوں کو حکم دے کر اور ایمان والوں کو حکم دے کر ایمان والیوں کو اس حکم کے تابع کیا گیا ھے ! اب عورتیں یہ اعتراض نہیں کر سکتیں کہ حکم تو درود پڑھنے کا ایمان والوں کو دیا گیا ھے،نہ کہ ایمان والیوں کو ،، حکم تو نماز کا ایمان والوں کو دیا گیا ھے،، روزے کا حکم ایمان والوں کو دیا گیا ھے نہ کہ ایمان والیوں کو