سوال: ہمارے رسول ﷺ کی کوئی گستاخی کرے تو ہم مسلمانوں کے جینے کا کیا فائدہ ؟

ہمارے رسول ﷺ کی کوئی گستاخی کرے تو ہم مسلمانوں کے جینے کا کیا فائدہ ؟

الجواب ـ

یہی تو آپ کا مرض اور ویک پؤائنٹ ہے ،، آپ مسلمان نہیں بلکہ چوہدری ہیں، اور چوہدری کی نفسیات یہی ہوتی ھے کہ میری گائے بھینس گھوڑے کو بھی کوئی گالی دے تو یہ گائے بھینس گھوڑے کی توھین نہیں ، بلکہ میری عزت و عصمت پر ہاتھ ڈالا گیا ہے ،ہم مر نہ جائیں اگر ہماری گائے کو کوئی پہلےپانی نہ پینے دے اور وہ قتل کرنے دوڑتا ہے، جب انا ان معمولی چیزوں پر بھڑک اٹھتی ہے وھاں رسول ﷺ تو پھر رسول ﷺ ہیں وہ بھڑک کر بندہ مارے ہی مارے ،، جبکہ حقیقت میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی ناموس کی فکر نہیں بلکہ ’’ ہمارے ‘‘ پر زیادہ زور ہے ،، اور یہی غلط فہمی ہے مسلمانوں کی جس نے اسلام کو ہی ایک جوہڑ بنا کر رکھ دیا ہے جس میں ہم جیسے بدبودار لوگ ہی بھرے پڑے ہیں کوئی نیا خون نہیں ملتا ۔۔ محمد رسول اللہ ﷺ صرف ہمارے نہیں پوری نوع انسانیت کے رسول ہیں ، آپ کو بنی اسرائیل کے رسولوں کی طرح ایک قوم یا قبیلے تک محدود مت فرمائیں ،، وما ارسلناک الا کآفۃ للناس بشیراً و نذیراً ؛؛ قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً ، فرما دیجئے کہ اے نوعِ انسانیت میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ،، جب وہ سب کے رسول ہیں تو پھر صرف آپ کو تکلیف کیوں ؟ ایک والد کے دس بچے ہوں ، ان میں سے ایک بچہ دوسرے بچے کو ماں کی گالی دیتا ھے تو وہ چپ کر جاتا ھے کیونکہ اس کو پتہ ھے کہ ماں اس بےغیرت کی بھی ہے ،، جبکہ محلے والا گالی دے تو غصہ آتا ھے کیونکہ وہ میری ماں کو گالی دیتا ھے جبکہ بھائی میری نہیں اپنی ماں کو گالی دیتا ھے ـ رسول اللہ ﷺ قیامت تک داعی ہیں ، ایک داعی اگر توھین وغیرہ کے چکر میں پڑ جائے تو پھر گھر ہی بیٹھا رہے دعوت کا کام ہی نہ کرے ـ جب کوئی سیلزمین کسی کے سامان نہ خریدنے کو اپنی توھین سمجھے اور نہ خریدنے والے کو گالیاں دینے اور مارنے دھاڑنے لگے تو پھر اس کو گھر ہی بیٹھ جانا چاہئے ـ

رسول اللہ ﷺ کا اخترام ہم مسلمانوں پر فرض ہے ،ہمیں آواز بلند نہ کرنے کا حکم ہے ، مگر لوگوں کو جو رسول اللہ ﷺ کو رسول مانتے ہی نہیں عام انسان سمجھتے ہیں ان پر نہ تو احترام واجب ہے اور نہ ہی ان کو جبر سے احترام پر مجبور کرنا مسلمانوں پر واجب ہے اور نہ ہی جبر کا احترام واقعی احترام کہلاتا ہے ،، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بدترین شخص وہ ہے جس کا احترام ڈر کی وجہ سے کیا جائے ـ جب آپ کوئی سامان بیچنے نکلتے ہیں تو خریدار کو حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں ہر وہ سوال کرے جو اس کے دل میں آئے ،، اگر آپ سوال کو توھین سمجھیں گے تو پھر سامان بھی واپس گھر لے کر جائیں گے ، جب رسول اللہ ﷺ کو بطور رسول لوگوں کے پاس لے کر جائیں گے تو ان کو حق حاصل ہے کہ وہ اس رسول کے بارے میں ہر اس بات کے بارے میں سوال کریں جو انہوں نے لوگوں سے سن رکھا ہے ـ اب جونہی انہوں نے کہا کہ آپ کے رسول نے تو ترپن سال کی عمر میں چھ سال کی بچی سے نکاح کر لیا تھا ،، تو کیا آپ میرے مسلمان ھونے کے بعد اپنی چھ سال کی بچی کا رشتہ دیں گے ،، اور آپ اس کو ماں بہن کی گالیاں دینے لگ گئے ناموسِ رسالت کے نام پر حالانکہ یہ غصہ اپنی ناموس اور چھ سالہ بچی کے لئے آیا ھے ، ابوبکر صدیقؓ کی چھ سالہ بچی کے لئے کسی کو غصہ نہیں آیا ـ غصے کا آپریشن کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ناموس کے نام پر بھی ہم اپنے بت کی ہی پوجا کر رہے ہوتے ہیں ـ
اسی سلسلے کی دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ قرآن ہماری کتاب ہے ،مسلمانوں کی کتاب ہے جبکہ قرآن ساری نوع انسانیت کی کتاب ہے ، اس میں مسلمان کے لئے 6236 آیات میں سے چار ساڑھے چار سو آیات احکامات کی ہیں ،، باقی سب پوری نوع انسانیت کے لئے دعوت اور دلائل ہیں ،، ہم اس کو اپنی سمجھ کر قبضہ گروپ بنے بیٹھے ہیں اور کسی غیر مسلم کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے یعنی دوا کو مریض کی پہنچ سے دور رکھنے کا مکمل اھمتام ہے ـ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ کتاب ہر گھر تک نہ پہنچے اور جب تک ہر ھندو ،سکھ ، عیسائی کے گھر سے نہ برآمد ھو نبی کا قرض ادا نہیں ھوتا جو ہمارے ذمے لگا کر گئے ہیں ،، بلغوا عنی ولوا آیۃ ،، میری طرف سے پہنچاؤ اگرچہ ایک آیت پہنچا سکو ،، کیا منہ دکھائیں گے رسول اللہ ﷺ کو کہ ہم پہنچانے کی بجائے ناموس کے نام پر قرآن کو بچاتے آئے ہیں غیر مسلموں سے ـ

قاری حنیف ڈار