سنت اور حدیث الگ چیزیں ہیں

سنت اور حدیث ۔
پہلے کچھ باتیں سمجھنے والی ھیں اور سمجھ کر دانتوں سے پکڑنے والی ھیں ،،،
پہلی بات یہ کہ حدیث اور سنت دو الگ چیزیں ھیں ،،،،،،،
کتاب و سنت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ھے اور دونوں اس طرح جڑی ھوئی ھیں جس طرح رات اور دن جڑے ھوئے ھیں کہ رات کے بعد دن لازم آتا ھے اور دن کے ساتھ ھی رات آتی ھے ،، احادیث کا دور صدیوں بعد کا ھے جبکہ کتاب و سنت کبھی ایک دن کے لئے بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ھوئے ، امت جس طرح کتاب کو لے کر چلی ھے بالکل اسی سواری پر فرنٹ سیٹ پر سنت بھی ساتھ ھی چلی ھے وہ بعد میں کورئیر سے نہیں منگوائی گئ ، اماموں اور صحاح ستہ کے مصنفین کی پیدائش سے پہلے ان کے والدین جس طریقے سے نماز پڑھتے ، روزہ رکھتے اور حج کرتے زکوۃ دیتے تھے اور جن عقائد پر جیتے تھے وہ سنت تھے ،، وھب ابن منبہ یا حضرت ابوھریرہؓ کا تحریر کردہ مخطوطہ ملنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مخطوطہ تین براعظموں ، ایشیا ، یورپ ، اور افریقہ میں ھر شہر، بستی ڈھوک اور ھر گھر اور بندے کو دستیاب تھا کہ جن کو پڑھ کر لوگ عبادات ادا کیئے کرتے تھے اور عقیدے سیدھے کیا کرتے تھے ، صدیوں پیچھے مت جایئے کاغذ کی فراوانی کے باوجود آج بھی دیکھ لیجئے کہ مسلمان آبادی کے کتنے گھروں میں یہ کتابیں دستیاب ھیں اور بچے بوڑھے مرد اور عورتیں ان کتابوں کو پڑھ کر ھی سب مناسک ادا کر تے ھیں ،،حقیقت یہ ھے کہ حدیث سوائے تاریخی واقعات کے اور کچھ نہیں مذھبوں کی تاریخ کے ساتھ تقدس جڑا ھوتا ھے اور اسکی ھر کتاب ،ھر شخصیت اور ھر شہر شریف ھوتا ھے ،، جس جگہ کوئی پیر ھوتا ھے وہ گاؤں شریف ھو جاتا ھے اور مذھبی شخصیات کے ناموں کا مجموعہ شجرہ طیبہ بن جاتا ھے ،، لوگ مسلمان ھونے کے اگلے گھنٹے کے اندر نماز پڑھنے چلے جاتے تھے چاھے وہ صحراء میں ھوں یا گاؤں میں مشرق میں ھوں یا مغرب میں، اسپین میں ھوں یا مصر میں ، سعودیہ میں ھوں یا ھند میں یہ تھی سنت جو اقیموا الصلاۃ کو ھی نہیں بلکہ اس کے طریقے کو بھی ساتھ لے کر چلی تھی ، طریقہ 240 ھجری میں نہیں آیا تھا ، ، اور وھب ابن منبہ کے مخطوطے کی دوسری کاپی تک دستیاب نہیں گھر گھر کس نے پہنچانا تھا ،،
اس لئے حدیث پہ سوال اٹھتے ھی یہ جو شور مچا دیا جاتا ھے کہ ” ناصح کو بلاؤ میرا ایمان سنبھالے "،، یا یہ کہ دین کو کوئی خطرہ پیدا ھو جاتا ھے کہ اب ھم کدھر جائیں ،، اگر آپ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ کی 12 جلدیں نہیں پڑھیں اور آپ کے ایمان کو کوئی خطرہ نہیں تو یقین جانیں 13 ویں جلد نے بھی آپ کے ایمان کو نہیں سنبھال رکھا اور جو لوگ اس پر ایمان لائے بغیر امام بخاریؒ کی پیدائش سے پہلے فوت ھو گئے ھیں وہ ان کی پیدائش و تصنیف کے بعد فوت ھونے والوں سے زیادہ ایمان و تقوے کے ساتھ فوت ھوئے ھیں ،، ایمان و عقاائد کا منبع حدیث نہیں قرآن ھے ،، خود نبئ کریم ﷺ کے ایمان کا منبع بھی قرآن حکیم ھے یہ بات میں بار بار مراراً و تکراراً عرض کر چکا ھوں ، اور عبادات و مناسک و شعائر کی عملی صورت کی ضامن سنت ھے جو کلمہ پڑھتے ھی بندہ شروع کر دیتا تھا اور جس میں کبھی انقطاع نہیں آیا اور جو کبھی کسی کے پیدا ھونے کے ساتھ پیدا ھوتی اور مرنے والے کے ساتھ مرتی نہیں ھے ،، کتاب سنت ایک ھی سواری کی سوار اور ایک ھی سکے کے دو رخ ھیں ،حشر میں اسی طرح جڑ کر کھڑے ھونگے جس طرح لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ ﷺ موجود ھوں گے ، اسی طرح قرآن اور سنت بھی کھڑے ھونگے ،، حکم قرآن سے پڑھا جائے گا اور قبول سنت کے ساتھ ناپ کر کیا جائے گا ،، قرآن کے علم کی عملی صورت سنت ھے ،قرآن روح ھے تو سنت ایک جسد ھے ،،
صدیوں تک حدیث کو سنت بنا کر پیش کرنے کا نتیجہ ھے کہ آج حدیث پر بات کی جائے تو لوگ سنت کو ھاتھ سے جاتا دیکھتے ھیں ،،
راویت میں تخریب کا عمل ،،
روایت میں تخریب کا عمل بہت پہلے شروع ھو گیا تھا جب اللہ پاک نے یہ حکم دیا تھا کہ ” اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کو چھان پھٹک لیا کرو مبادا اس خبر کی بنیاد پر کسی قوم پر بے قصور جا پڑو اور پھر ندامت کا منہ دیکھنا پڑے ،، شہادت کا نصاب صحابہؓ کے لئے بھی دو اور چار کا تھا یعنی کتابت میں دو مرد اور بدکاری میں چار ،،، ایسا نہیں ھے کہ آج فسق و فجور کے زمانے میں 12 افراد کی گواھی مقرر کی گئ ھو، نماز کی رکعتیں ھوں یا روزوں کی تعداد ، زکوۃ کا نصاب ھو یا طواف اور صفا مروہ کے چکر سب کی تعداد صحابہؓ اور ھمارے لئے یکساں ھے تو پھر باقی چیزوں میں بھی استثناء کوئی نہیں ھے ،، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بنائے گئے اصول کو بعد والے منسوخ نہیں کر سکتے ،حدیث موسی الاشعریؓ جیسا ماھر قرآن بھی پیش کرے تو دوسرا گواہ لازم ھے جیسا کہ خلیفہ راشد نے طے کیا کیونکہ وہ بہتر سمجھتے تھے کہ عجم کی فتح نے کس قسم کے لوگوں سے مدینہ بھر دیا ھے لہذا اب وقت آ گیا ھے کہ اس کے اصول طے کیئے جائیں ،چنانچہ انہوں نے ایک جید صحابیؓ سے اس کے اطلاق کی ابتدا کی ،، حضرت ابوھریرہؓ مشہور مدلس تھے بغیر اصلی حوالہ دیئے حدیث بیان کر دیتے تھے ، کہا جاتا ھے کہ صحابیؓ کی تدلیس نقصان دہ نہیں ھوتی قابلِ قبول ھوتی ھے مگر جب صحابیؓ کسی یہودی نومسلم تابعی کے تابع ھو جائے تو پھر تدلیس زھر قاتل بن جاتی ھے اور قولِ رسول ﷺ کو قولِ کعب احبار سے جدا کرنا بہت ضروری ٹھہرتا ھے ،،جیسا کہ جرح و تعدیل کے ائمہ نے لکھا ھے کہ ابوھریرہؓ سے سننے والے یہ تفریق کیئے بغیر روایت کر دیتے تھے کہ یہ حدیثِ رسولﷺ ھے یا قولِ کعب احبار ، چنانچہ اس مجلس کے شریک یہ گواھی دیتے ھیں کہ ھم مجمعے میں جس کو قولِ کعب کے طور پر سنا کرتے تھے ، تھوڑی دیر بعد وہ قولِ رسول ﷺ کے طور پر مدینے میں مشہور ھو جاتا تھا ،،( اتحاف النبیل ) لوگ حضرت ابوھریرہؓ کو صحابئ رسولﷺ کے طور پر جانتے تھے اور اسی نسبت سے ان کی ھر بیان کردہ بات کو مرفوع حدیث کے طور پر لیتے تھے جبکہ ابوھریرہؓ کعب احبار کے شاگرد اور تورات کے عالم بن چکے تھے اور مجمعے میں دونوں طرف کے علم کے خزانے لٹاتے تھے ،، مسلم شریف کی ایک حدیث پر تبصرہ فرماتے ھوئے ،، شیخ بن باز فرماتے ھیں کہ یہ کعب احبار کی اباطیل ھیں جن کو راوی حضرت ابوھریرہؓ سے سن کر بطورحدیث بیان کر دیتے ھیں ،،
ومما أُخذ على مسلم رحمه الله رواية حديث أبي هريرة: أن الله خلق التربة يوم السبت، الحديث. والصواب أن بعض رواته وهم برفعه للنبي صلى الله عليه وسلم وإنما هو من رواية أبي هريرة رضي الله عنه عن كعب الأحبار؛ لأن الآيات القرآنية والأحاديث القرآنية الصحيحة كلها قد دلت على أن الله سبحانه قد خلق السماوات والأرض وما بينهما في ستة أيام أولها يوم الأحد وآخرها يوم الجمعة؛ وبذلك علم أهل العلم غلط من روى عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الله خلق التربة يوم السبت، وغلط كعب الأحبار ومن قال بقوله في ذلك، وإنما ذلك من الإسرائيليات الباطلة. والله ولي التوفيق.
الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله
مجموع فتاوى ومقالات متنوعة المجلد الخامس والعشرون
،،،،،،،،،،،
پھر ابوھریرہؓ خود فرماتے ھیں کہ جب تک عمرؓ زندہ تھے میں ” قال رسول اللہ ” نہیں کہہ سکتا تھا ،، جب وہ قال رسول اللہﷺ کے بغیر ھی باتیں بتایا کرتے تھے تو راویوں کو کعب احبار اور رسول اللہ ﷺ کی بات میں فرق کرنے میں مغالطہ لگنا لازمی تھا ،،
حضرت ابوھریرہؓ کی تدلیس کی مثال بخاری شریف کی حدیث ” ذوالیدین ” ھے
حدیث نمبر : 482
حدثنا إسحاق، قال حدثنا ابن شميل، أخبرنا ابن عون، عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتى العشي ـ قال ابن سيرين سماها أبو هريرة ولكن نسيت أنا ـ قال فصلى بنا ركعتين ثم سلم، فقام إلى خشبة معروضة في المسجد فاتكأ عليها، كأنه غضبان، ووضع يده اليمنى على اليسرى، وشبك بين أصابعه، ووضع خده الأيمن على ظهر كفه اليسرى، وخرجت السرعان من أبواب المسجد فقالوا قصرت الصلاة. وفي القوم أبو بكر وعمر، فهابا أن يكلماه، وفي القوم رجل في يديه طول يقال له ذو اليدين قال يا رسول الله، أنسيت أم قصرت الصلاة قال ” لم أنس، ولم تقصر”. فقال ” أكما يقول ذو اليدين”. فقالوا نعم. فتقدم فصلى ما ترك، ثم سلم، ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر، ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر. فربما سألوه ثم سلم فيقول نبئت أن عمران بن حصين قال ثم سلم.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ ابن عون نے خبر دی، انھوں نے محمد بن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دوپہر کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی۔ ( ظہر یا عصر کی ) ابن سیرین نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نام تو لیا تھا۔ لیکن میں بھول گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ایک لکڑی کی لاٹھی سے جو مسجد میں رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور آپ نے اپنے دائیں رخسار مبارک کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سہارا دیا۔ جو لوگ نماز پڑھ کر جلدی نکل جایا کرتے تھے وہ مسجد کے دروازوں سے پار ہو گئے۔ پھر لوگ کہنے لگے کہ کیا نماز کم کر دی گئی ہے۔ حاضرین میں ابوبکر اور عمر ( رضی اللہ عنہما ) بھی موجود تھے۔ لیکن انھیں بھی آپ سے بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انھیں میں ایک شخص تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور انھیں ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ انھوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا۔ کیا ذوالیدین صحیح کہہ رہے ہیں۔ حاضرین بولے کہ جی ہاں! یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور باقی رکعتیں پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور سہو کا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی لمبا سجدہ۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ پھر تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی، لوگوں نے بار بار ابن سیرین سے پوچھا کہ کیا پھر سلام پھیرا تو وہ جواب دیتے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ عمران بن حصین کہتے تھے کہ پھر سلام پھیرا۔
اس حدیث کے راوی حضرت ابوھریرۃؓ ھیں جو فرماتے ھیں کہ ” ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے (ھمیں بعد از ظھر کی نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی ) صاف پتہ چلتا ھے کہ حضرت ابوھریرہؓ اس نماز میں موجود تھے اور آنکھوں دیکھا حال بیان فرما رھے ھیں جبکہ حقیقت یہ ھے کہ ابوھریرۃؓ تب تک مسلمان بھی نہیں ھوئے تھے اور نہ مدینہ ابھی دیکھا تھا اور نہ رسول اللہ ﷺ سے ملاقات ھوئی تھی ،، ذوالیدین غزوہ بدر میں شھید ھو گئے تھے اور ابوھریرہؓ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ھوئے تھے ،، گویا اس حدیث میں حضورﷺ کو یاد دلانے والے ذوالیدین حضرت ابوھریرہؓ کے مسلمان ھونے سے سالوں پہلے شھید ھو گئے تھے ، مگر ابوھریرہؓ واقعہ یوں بیان کر رھے ھیں گویا وہ مسلمان ھونے سے 5 سال پہلے اس نماز میں خود بھی موجود تھے ،، یہ حدیث تمام صحاح میں آئی ھے ، گویا یہ واقعہ برسوں بعد کسی کے منہ سے حضرت ابوھریرہؓ نے سنا اور اس میں اپنی موجودگی ڈال کر سنایا مگر اصل واقعہ بیان کرنے والے کا نام نہیں بتایا ،، دوسری جانب ھمارے شارحین کا حال یہ ھے کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی کتاب التفسیر میں بیان کردہ بات کہ جب سورہ قمر نازل ھوئی تو میں ایک بھاگتی دوڑتی لڑکی تھی ” کنت جاریۃ العب ” کو تدلیس قرار دیتے ھیں کہ انہوں نے کسی سے سن لیا ھو گا ،، ورنہ تو وہ اس سورت کے نازل ھونے کے بعد پیدا ھوئی ھیں ، اور سورت کے نزول کے بعد ان کو پیدا کرنا اس لئے ضروری ھے تا کہ ان کی عمر نکاح کے وقت 6 سال ثابت ھو،، 16 سال ثابت نہ ھو ،،
صحیح مسلم کی شرح جلد 4- میں مولانا ندوی لکھتے ھیں کہ امام ابو حنیفہ فرماتے ھیں کہ ھم تمام صحابہؓ سے روایت لے لیتے ھیں مگر جب کسی روایت کا ذریعہ ابوھریرہؓ یا انس بن مانک یا سمرہ بن جندب ھوں تو میں ایسی حدیث نہیں لیتا ،،
منافقین کی چیرہ دستیوں کا نشانہ ،،،،
یا د رکھیں مدینے اور اس کے ارد گرد کے منافقین کی چیرہ دستیوں کا نشانہ تین چیزیں رھی ھیں ،،
1- قرآن کو مشکوک کرنا ،،
2- نبئ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس اور آپ ﷺ کے سیرت و کردار،اور آپﷺ کی عائلی زندگی کو نشانہ بنانا،
3- خلفائے راشدین یعنی جید صحابہؓ کو متنازعہ بنانا ،،،،،،،،،،،
ذکر ذکار اور عبادات و مناسک سے منافقین کو کچھ بھی لینا دینا نہیں تھا ،، لہذا اس میں گڑبڑ کا خطرہ نہ ھونے کے برابر ھے ،،مگر قرآن حکیم کو مشکوک کرنے والی تمام احادیث کہ جن سے یہ ظاھر ھو کہ قرآن نبئ کریم ﷺ کی رحلت کے وقت کتابی صورت میں موجود نہیں تھا ،، بلکہ ورق ورق ،لکڑیوں اور ھڈیوں کی شکل میں بکھرا پڑا تھا ،جسے صحابہؓ کی ایک کمیٹی نے مشورے کے ساتھ مرتب کیا ، ایسی تمام حدیثیں جھوٹ کا پلندہ ھیں ، عجیب بات ھے کہ امام بخاری تو اپنی کتاب مکمل کر کے گئے ھیں مگر محمد رسول اللہ اپنے اوپر نازل شدہ کتاب ، جو بار بار اپنے آپ کو کتاب کہتی ھے وہ نامکمل چھوڑ کر گئے ھیں ،، بکھرے ھوئے اوراق کو دنیا کی کس لغت میں کتاب کہا جاتا ھے ؟
عجیب عجیب ڈائیلاگ مسلمان ھضم کر لیتے ھیں ” کہ عمرؓ نے کہا کہ اگر ” لقد جاءکم رسول من انفسکم ،عزیز علیہ ما عنتم ” والی آیتوں کے بارے میں کہا کہ اگر یہ تین آیتیں ھوتیں تو ھم ان کی الگ سورت بنا دیتے ،مگر چونکہ دو آیتیں ھیں لہذا ھم ان کی سورت نہیں بنا سکتے لہذا سب سے آخر نازل ھونے والی سورت کے آخر میں ان کو رکھ دو ” اس مکالمے سے ثابت یہ کیا گیا ھے کہ باقی کی سورتیں بھی ان حضرات نے اپنی مرضی سے بنائی اور مرتب کی ھیں ،، جبکہ حقیقت یہ ھے کہ خلفاء راشدینؓ نے بار بار صرف نامکمل قرآن ھی لوگوں سے جمع کیئے ھیں تا کہ دنیا کو قرآن کا کوئی غیر مکمل نسخہ نہ ملے ،، اور یہ کام صرف خلفاء راشدین ھی کر سکتے تھے کہ بزرو بازو اور شرطہ بھیج کر جید صحابہؓ سے ان کے نامکمل نسخے ضبط کریں ، جن کے حواشی پر ان حضرات نے کچھ احادیثِ قدسیہ تک لکھ رکھی تھی ، جنہیں کل کلاں قرآن سمجھا جا سکتا تھا ،، اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق وہ ایک حدیث قدسی کو قرآن ہی سمجھ کر تلاوت کرتے تھے یعنی ابن آدم کو سونے سے بھری ایک وادی ملے تو دوسری کی تمنا کرے گا دوسری ملے تو تیسری کی تمنا کرے گا، اس کا پیٹ قبر کی مٹی بھرتی ہے یا جھنم کی آگ ۔
نبئ کریمﷺ کی طرف منسوب ایسے تمام واقعات جو کہ آپ کے شایان شان نہ ھوں جن میں گلیوں اور کھیتوں کھلیانوں میں شادیاں اور طلاقیں وغیرہ ھوں ناقابلِ التفات ھیں ،،، اسی طرح دیگر انبیاء کی توھین اور تنقیص پر مبنی احادیث پر بھی کوئی توجہ نہ دی جائے ،،
ایسی تمام حدیثیں جن میں توھمات کی تائید ھو جیسے نحوست عورت ، گھر اور گھوڑے میں ھوتی ھے جبکہ اللہ پاک فرماتا ھے کہ ” قل طائرکم معکم ” تمہاری نحوست تمہارے اپنے ساتھ ھے ،،،
نیز احادیث کو سلاد کی طرح لینے کی بجائے دوا کی طرح لینا چاھئے اور خوب غور فکر کر کے ، کتاب اللہ پر پیش کر کے پرکھ کر لینا چاھئے ،،،