جبر کی طلاق اور قرآن ،،،،،،،،،،،،،

یہ حقیقت ھے کہ نماز کے بارے میں تفصیل تو اللہ پاک نے قرآن میں بیان نہیں فرمائی ،، مگر اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ھے کہ اللہ نے بیوی منانے کا طریقہ قرآن میں تفصیل سے بیان فرمایا ھے، طلاق سے پہلے اور طلاق کے بعد کے معاملات کئ سورتوں میں تفصیلاً طے کر دیئے ھیں ،،، مگر لوگ طلاق بھی گالی کی طرح دیتے ھیں ، جبکہ دوسری جانب عیسائی ھیں جو طلاق اور اس کے معاملات کو طے کرنے میں مہینے اور سال لگا دیتے ھیں ،،حالانکہ ان کے نبی عیسی علیہ السلام نے شادی کر کے ان کے لئے کوئی اسوہ بھی نہیں چھوڑا جبکہ ھمارے نبیﷺ نے درجن بھر شادیاں کیں ،طلاق کا طریقہ بھی عمل سے سمجھا گئے ،، اس کے باوجود ھم طلاق کو دو طرفہ معاہدہ سمجھنے کی بجائے اپنی ہتھیلی کا انگارہ سمجھ کر جھٹ سے پھینک دیتے ھیں – اس کی وجہ یہ ھے کہ یورپ نے شادی اور طلاق کو دو طرفہ معاملہ سمجھا ھے نہ کہ یک طرفہ ،،لہذا دو طرفہ مفادات اور پھربچوں کے مستقبل کی خاطر قانون سازی کی ھے ، جبکہ ھمارے یہاں علماء ھر معاملے فتوی دیتے وقت یہ لکھنا نہیں بھُولتے کہ ” اور اس کی بیوی اس سے جدا ”
سوال بڑا سادا سا ھے کہ کیا کوئی بندہ دوسرے بندے کو مجبور کر کے طلاق دلوا سکتا ھے ؟
جواب اس سے بھی زیادہ سادہ ھے کہ ھر گز نہیں ،، اگر آپ یہ کہتے ھیں کہ جبر کی طلاق نافذ ھو جاتی ھے تو آپ ھر بندے کو لائسنس دینا چاھتے ھیں کہ وہ جس کی بیوی خوبصورت دیکھے اسے اٹھا کر لے جائے اور گن پؤائنٹ پہ طلاق دلوا کر اپنے لئے رستہ صاف کر لے ،،،
جب حضرت عمارؓ کو کفارِ مکہ نے پانی میں غوطے دے دے کر رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے اور کفر کرنے پر مجبور کر دیا اور وہ بعد میں روتے ھوئے نبئ کریم ﷺ کی بارگاہ میں پیش ھوئے اور فرمایا کہ میں ھلاک ھو گیا ،، مشرکین نے مجھے اپنے بتوں کی تعریف اور آپ کے انکار پر مجبور کر دیا اور میں ان کا تشدد برداشت نہیں کر سکا اور جو وہ کہتے رھے میں اس کو دہراتا گیا ،،،،
تو اللہ پاک نے اسی وقت فیصلہ فرما دیا تھا کہ جبر کا کفر ، کفر نہیں ھے اگر تمہارا دل ایمان پر جما ھوا ھے تو منہ الفاظ کی کوئی اھمیت نہیں ،،
( من كفر بالله من بعد إيمانه إلا من أكره وقلبه مطمئن بالإيمان ولكن من شرح بالكفر صدرا فعليهم غضب من الله ولهم عذاب عظيم ( النحل -106 )
جس نے کفر کیا ایمان لانے کے بعد اور اپنا سینہ کھول دیا کفر کے لئے ان پر اللہ کا غضب ھے اور ان کے لئے بڑا عذاب ھے سوائے اس شخص کے کہ جس کو مجبور کیا گیا کفر پر مگر اس کا دل ایمان پر مطمئن ھے ،،،،
کفر و ارتداد بہت بڑا جرم ھے مگر جبر کا کفر بھی کفر نہیں۔ اللہ اور رسولﷺ کو جبراً دلوائی گئ گالی بھی گالی نہیں ،،تو جبر سے دلوائی گئ طلاق بھی طلاق نہیں
لا اکراہ فی الدین ،، لا اکراہ فی الطلاق بھی ھے ،، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت سے تین چیزوں کا حرج ھٹا لیا گیا ھے ،، خطا اور بھول چوک اور جس پر ان کو مجبور کیا جائے،،
عن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( إن الله تجاوز عن أمتي الخطأ والنسيان وما استُكرهوا عليه ) حديث حسن رواه ابن ماجة والبيهقي وغيرهما
اسی طرح بخاری شریف میں ثبت ھے کہ عامؓر ابن اکوع جب غزوہ خیبر میں ایک کافر کو مارنے لگے تو وہ تلوار گھوم کر خود ان کو آ لگی اور شھید ھوگئے ،جس پر اصحابؓ نے کہا کہ بطل عملہ ، لانہ قتل نفسہ ،، اس کی شھادت رائگاں گئ کیونکہ اس کو کافر نے نہیں بلکہ اس نے خود کو خود قتل کر لیا ،، ان کے بھائی سلمہؓ ابن اکوع کو اس بات کا شدید دکھ لگا اور وہ روتے ھوئے نبئ کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ھوئے اور عرض کیا کہ لوگ کہتے ھیں کہ عامرؓ کی شہادت ضائع ھو گئ اس نے خود کو خود ھلاک کر لیا ،، اللہ کے رسولﷺ نے پوچھا کون لوگ یہ بات کہہ رھے ھیں ؟ سلمہؓ نے عرض کیا کہ آپ کے اصحابؓ ھی یہ کہہ رھے ھیں ،، آپ ﷺ نے فرمایا یہ لوگ جھوٹ بول رھے ھیں ، عامر نے اپنے آپ کو قتل کرنے کا قصد نہیں کیا تھا بلکہ تلوار خطا سے اچٹ کر ان کو آ لگی لہذا وہ شہید ھیں ،،
اگر جبر کا کفر ،کفر نہین تو جبر کی طلاق بھی طلاق بھی طلاق نہیں جب تک کہ بندے کا فیصلہ برضا ورغبت اور قلبی ارادے کے ساتھ نہ ھو ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، میں قرآن کے فیصلے کے بعد اسی حدیث کو لیتا ھوں جو قرآن کی تصدیق کرتی ھے ، اور جو قرآن کے خلاف ھے وہ حدیث ھو سکتی بھی نہیں کیونکہ خود قرآن نے ھی اللہ کے رسولﷺ کا مشن اللہ کے حکم کی پابندی اور تابعداری بتایا ھے ،، ان اتبع الا ما یوحی الی ،، میں نہیں پیروی کرتا مگر اسی کی جو میری طرف وحی کیا جاتا ھے ،،
ھمارے یہاں ایک ٹرینڈ بن گیا ھے کہ قرآن کے ھر حکم کے خلاف آپ کو ڈھیروں حدیثیں سنا دی جائیں گی اور یوں قرآن کھڑا منہ دیکھتا رہ جائے گا حدیث سے اس کو منسوخ کر دیا جائے گا ، نام یہ ھو گا کہ دین کی وضاحت کرنا حضورﷺ کا فرضِ منصبی ھے ،مگر وضاحت کا مطلب مخالفت ھی لے لیا گیا ھے ،، وضاحت جہاں ھوتی ھے پتہ چلتا ھے کہ یہ وضاحت ھو رھی ھے ،تفصیل بیان ھو رھی ھے ، نہ کہ اللہ کہے مشرق کو جانا ھے اور تفصیل کہہ رھی ھو کہ مغرب کو جانا ھے ،،