توحید فی العقیدہ

عقیدے میں کسی قسم کی کوئی چھوٹ نہیں ھے ،عقیدہ اللہ کے حق کے مطابق ھو گا نہ کہ ھماری استطاعت کے مطابق ، یہی مطلب ھے ،، اے ایمان والو اللہ کا تقوی اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقوے کا حق ھے ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ( آل عمران – 102 )
جبکہ عمل میں ھماری استطاعت کا لحاظ ملحوظ ھے ، یہی مطلب ھے ” فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ( التغابن – 16 )
عقیدہ درست ھو تو بغیر حساب جنت جانے کی امید بھی رکھی جا سکتی ھے اگرچہ عمل ناقص ھو ،، فسادِ عقیدہ کے ساتھ عمل کچھ فائدہ نہیں دیتا اس لئے اس میں نہایت چابک دستی کی ضرورت ھے ،،
عام طور پہ دیکھا گیا ھے کہ مانگنے والے کوشش کرتے ھیں کہ دردناک سے دردناک صدا تیار کریں جس کو سنتے ھی سننے والے کا دل پگھل جائے ،، کسی کی گود میں بچہ دیکھ کر گود سلامت رھنے کی دعا دینا ،، بغیر بچے والی عورت کو گود ھری ھونے کی دعا دینا ،، جوان نو بیاھتا میاں بیوی کو جوڑی سلامت رھنے کی دعائیں دینا بھکاریوں کی تربیت اور حکمتِ عملی کا کمال ھوتا ھے ،، گویا زبان ھو تو زبان کا بہترین استعمال مانگنے کے لئے ھی کیا جاتا ھے ، البتہ اگر زبان نہ ھو تو گونگا بھکاری ایک لکھی ھوئی عرضی ھر ایک کے آگے رکھتا پھرتا ھے ،، یا پھر کتے کے گلے میں ایڈریس لکھ کر ڈالا جاتا ھے کہ اگر کسی کو ملے تو فلاں پتے پر پہنچا کر ثوابِ دارین کے ساتھ انعام در پونڈز و ڈالرز کمانے کا موقع ھاتھ سے جانے نہ دے ،، اللہ پاک نہ صرف زبان والوں کی سنتا ھے بلکہ بے زبان گونگے کی بھی سنتا ھے جس کی ضرورت کو الفاظ بھی معلوم نہیں ھوتے ،، میری پھوپھی کے دو گونگے بیٹے ھیں جو بہرے بھی ھیں لہذا انہین سورہ فاتحہ یا تسبیح یا التحیات یا دعائے قنوت سننے کا بھی موقع نہیں ملا مگر وہ نماز اتنے خشوع و خضوع سے پڑھتے ھیں اور اس طرح ” منمن منمن ” کرتے ھیں گویا وہ تجوید کے ساتھ فاتحہ پڑھ رھے ھیں ، ان کی اس ” مِنمِن مِن مِن ” کو الفاظ کا روپ خود رب رحمان دے رھا ھو گا ،، سن نہیں سکتے مگر جمعے کے دن بہت پہلے جا کر مسجد بیٹھ جاتے ھیں کیونکہ والدہ نے بتایا ھے کہ اللہ کے گھر پہلے جاؤ تو وہ بہت خوش ھوتا ھے کہ بندہ مجھ سے بہت پیار کرتا ھے لہذا سارے رشتے چھوڑ کر آ کر میرے گھر میرے پاس بیٹھا ھے ،، میں ھمیشہ ان سے دعا کی درخواست کرتا ھوں اور اللہ پاک کا کرم ھے کہ وہ ان کی دعا رد نہیں کرتا ،، میں نے حرم میں بھی ایک گونگے کو یوں ھاتھ ھلا ھلا کر اللہ سے فریادیں کرتے دیکھا ھے جس طرح کو شخص بڑے داعیئے کے ساتھ اپنی ماں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر مانگ رھا ھو، وہ چلتے چلتے جب ٹولیوں کو مختلف دعائیں کرتے پاس سے گزرتے دیکھتا تو شاید اسے گمان گزرتا کہ یہ بولنے والے سارا خزانہ لوٹ کر لے جائیں گے جبکہ میرے پاس تو الفاظ بھی نہیں ھیں ،، پھر وہ بیتابی کے ساتھ ایک دردناک آواز نکالتا اور دوڑ لگا کر ان سے آگے نکل کر اس طرح فریادیں کرتا جس طرح ھم لسی کا برتن لائن میں سب سے پہلے رکھنے کی کوشش کرتے تھے کہ ھمیں لسی مل جائے ، اس لئے کہ ضروری نہیں کہ لسی سب برتنوں کو کفایت کرے گی ، برتن باقی ھوتے تھے کہ لسی ختم ھو جاتی تھی لہذا ھم برتن کو پیچھے رکھنے کا رسک نہیں لے سکتے تھے ،،مگر ساری مخلوقات ختم ھو سکتی ھیں ، ان کے سوال ختم ھو سکتے ھیں میری رب کی رحمت ختم نہیں ھو گی ،، اس کا فرمان ھے کہ اے آدم کی اولاد تمہارے اگلے اور تمہارے بعد آنے والے ، زمین والے اور آسمان والے ، تمہارے جن اور تمہارے بشر ،، سب بیک وقت سوال کریں اور اللہ ان کے سوال کے مطابق عطا کرے تب بھی اس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں ھوتی جتنی سمندر میں سوئی ڈبو کر نکالی جائے تو سمندر کے پانی میں کمی ھوتی ھے ،” عطائی کلامۤ و عذابی کلام ” میری عطا میرا کلام ھوتی ھے ،بس کہتا ھوں اور مل جاتا ھے ، اور میرا عذاب بھی بس میرا کہنا ھی ھوتا ھے کہ ھر وہ چیز جس کو انسان نفع رساں سمجھتا ھے اس کے لئے عذاب بن جاتی ھے ،، اگرچہ وہ اس کی اپنی اولاد ھو ،، الغرض میں اپنی ساری داعائیں چھوڑ کر اس گونگے کے پیچھے دوڑنا اور اس کی دردناک آوازوں پر آمین آمین کہنا شروع ھو گیا ،کیونکہ میری دعا میرے الفاظ میں تھی جبکہ اس کی فریادوں کو اللہ الفاظ عطا فرما رھا تھا ،،،،،،،،،،،،،