انسان اور تقدیر

اللہ پاک اگر چاھتا کہ انسان کو فرشتوں کی طرح گناہ پر قدرت نہ رکھنے والی معصوم مخلوق بنائے تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں تھی ،، تب بھی اس کا ” کُن ” ھی خرچ ھونا تھا ،،،،،،،،،،، مگر اسے ایسی مخلوق چاھئے تھی جسے گناہ کر سکنے کی بھی ویسی ھی آزادی دی جائے جیسی کہ نیکی کر سکنے کی ،، اور ھر دو صورتوں میں اس پہ جبر نہ کیا جائے ،، عدل کا تقاضہ یہ ھے کہ جبر کے گناہ پر سزا نہ دی جائے اور جبر کی نیکی پہ جزاء کوئی نہ دی جائے ، جب سب کچھ خدا کروا رھا ھے اور بندہ مجبوری سے کر رھا ھے تو اس کو جزاء اور سزا کیسی؟ وہ تو ایک کھلونا ھے جیسے چابی دے کر اپنی مرضی کی گیم کرائی جا رھی ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
انسان کی قدر و قیمت اس کی اسی گناہ کر سکنے اور نیکی کر سکنے کی قدرت اور آزادی میں ھے ،، صرف انسان ھی اپنی خواھشات سے لڑ سکتا ھے وھی اپنے نفس کے تقاضوں کو اپنی عقل سے مسترد کر سکتا ھے ، صرف وھی روزہ رکھ سکتا ھے اور شدید گرمی کے طویل روزوں میں ٹھنڈے پانی کی خواھش کو کچل سکتا ھے ،یہ کام شیر نہیں کر سکتا اگرچہ جنگل کا بادشاہ ھے ،، گاما ریڑھی والا کر سکتا ھے اگرچہ اس کے پاؤں میں جوتے بھی نہ ھوں ،،،،،،،
جب انسان جیسی کمزور مخلوق کو کر سکنے اور نہ کرنے کی آزادی دے دی گئ تو اس کے لئے کچھ ضابطے بنائے گئے ،، انسان کا ارادہ اللہ کے ارادے پہ غالب نہیں آئے گا ،، مثلاً اگر اللہ پاک نے میری عمر 60 سال لکھی ھے تو وہ میرے ارد گرد ایک حصار بنا دیتا ھے – 60 سال سے پہلے ھر کسی کا ارادہ اس حصار سے ٹکرا کر بے اثر ھوتا رھے گا، وہ ھر شخص کے ارادے سے اسی وجہ سے ھر لحظہ واقف رھتا ھے ،،ھر گاڑی پہ نظر رکھتا ھے کہ وہ میری کار سے ٹکرا کر مجھے مار نہ دے ،” ما کان لنفسٍ ان تموت الا بأذن اللہ کتاباً مؤجلاً” کسی جان کی ھمت نہیں کہ مر جائے مگر اللہ کے اذن کے ساتھ ایک مقررہ وقت پر ” لہ معقباتۤ من بینِ یدیہ و من خلفہ یحفظونہ من امر اللہ ” اس کے ارد گرد رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ھیں جو اس کی حفاظت کرتی ھیں اللہ کے حکم سے ،،
جس دن میری اجل پوری ھو جائے گی ، اس دن اللہ اس شخص کے ارادے کی مزاحمت ختم کر دے گا اور محافظین کو کہہ دیا جائے گا کہ اب اس کو اس کے حال پہ چھوڑ دیا جائے ،یوں وہ شخص اپنے ارادے میں کامیاب ھو جاتا ھے ،، اس قتل میں اللہ کی طرف سے مزاحمت ختم کی گئ ھے ،، مجھے قتل کرنے کا ارادہ اس شخص کا اپنا ھے اور پتہ نہیں کب سے ھے ،، اللہ نے اسے کوئی خبر یا لیٹر نہیں بھیجا کہ میں نے فلاں کی حفاظت ختم کر دی ھے تم جا کر اسے قتل کردو ، اور وہ تقدیر کا مارا اسے اللہ کا حکم سمجھ کر قتل کرنے نکل کھڑا ھوا ،،،،،، اب سوال کیا جاتا ھے کہ اگر اللہ پاک چاھتا تو وہ قتل نہ کر سکتا ،، مگر اللہ پاک نے میری لکھی عمر جب پوری کروا دی تو اب وہ میری عمر کیوں بڑھائے گا اور کیوں کسی کے ارادے میں رکاوٹ ڈالے گا ؟ میں اپنی لکھی گئ عمر کا حصہ وصول کر چکا ھوں ،،،،،،، وہ شخص اپنے ارادے اور قتل پر دنیا کے قانون میں بھی پکڑا جاتا ھے اور آخرت میں بھی پکڑا جائے گا ،، نہ تو وہ اللہ کی طرف سے حکم دکھا سکے گا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ فلاں کو قتل کر دو ،، اور نہ دنیا کی حکومت کا حکم دکھا سکے گا کہ حکومت نے مجھے کہا تھا کہ اسے قتل کر دو ،، تارا مسیح بھٹو سمیت سیکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود ان کے قتل میں نہیں پکڑا جائے گا کیونکہ اس کے پاس حکومت کا حکم موجود ھو گا ،،،
جاری ھے