آدھی عورت

بسم اللہ الرحمٰن الرۜحیم،والصلوٰۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی الہ وصحبہ اجمعین،و من تبعھم باحسان الی یوم الدین،،
امۜا بعد قرآن حکیم کی سورۃ البقرہ کی آیت 282 میں ڈاکومنٹری شہادت میں دو عورتوں کی گواھی کا ذکر کیا گیا ھے ،جس کو پیمانہ بنا کر دو عورتوں کی گواھی کو مستقل اصول بنا لیا گیا ھے ،، مگر الحمد للہ اس زمانے میں بھی صحابہؓ کرام اور فقہاء میں وہ لوگ موجود تھے جو مسلسل کہتے رھے کہ ایک عورت کی گواھی بھی مکمل نصاب ھے، سوائے ایسی گواھی کے کہ جس میں انسان اپنے ھاتھوں گواھی کا بندوبست کرتا ھے،،وہ تمام واقعات و حوادث جو اچانک رونما ھوتے ھیں ،وہ اپنا گواہ خود چنتے ھیں،یعنی جو موقعے پر موجود ھو گا وہ گواھی دے گا،چاھے وہ مرد ھے یا عورت ایک ھے یا دو یا دس،،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،یہ بات سمجھنے کے لئے افلاطون ھونا ضروری نہیں کہ کوئی ایسا بندوبست کرنا نہ تو قرینِ قیاس ھے اور نہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق کہ انسان ایک مرد اور دو عورتوں کا بندوبست کر کے رکھے کہ ابھی یہاں ڈاکا پڑنے والا ھے،یا قتل ھونے والا ھے،اور گواھی کا نصاب پورا ھونا چاھئے،،جو موقعے پر ھو گا،مرد یا عورت یا بچہ وہ ھی گواھی دے گا !
ڈاکومنٹری گواھی سے اسلام عورت کو دور ھی رکھنا چاھتا ھے،اور آج کے عدالتی نظام اور تاریخوں پر تاریخیں جسطرح دی جاتی ھیں اسی میں حکمت بھی ھے کہ عورت کو ان بکھیڑوں سے دور ھی رکھا جائے ،دنیا میں آج بھی کروڑوں کی تعداد میں تیار کئے جانے والے معاھدوں میں عورتوں کی گواھی کی نسبت 2٪ سے بھی کم ھے، سورۃ البقرہ تو سیدھا سیدھا کہہ رھی ھے کہ کاغذی معاہدوں میں عورت کو گواہ کے طور پرشامل ھی مت کرو اگر بحالتِ مجبوری مرد میسر نہ ھو تو تیمم کے طور پر عورت کو گواہ بناؤ مگر پھر ایک عورت نہیں بلکہ دو عورتیں لو کیونکہ مردوں کی عدالت میں عورت کا پیش ھونا ایک غیرفطری امر ھے جس سے عورت کو کوفت اور وحشت ھوتی ھے،فطری حیا اور شرم کی بدولت وہ چُوک بھی سکتی ھے،اس صورت میں دو عورتوں کی موجودگی ان کے لئے ڈھارس کا سبب ھوگی، اور اگر ایک عورت اس صورتحال میں بدحواسی میں بھول چُوک کا شکار ھو جائے تو دوسری اس کو لقمہ دے سکے،اور اس کے لئے جو الفاظ اللہ پاک نے انتخاب فرمائے ھیں وہ ھی اس کی وضاحت کے لئے کافی ھیں،،اللہ نے لفظ ” تنسی ” یعنی بھولنے کا لفظ استعمال ھی نہیں فرمایا بلکہ "تضل” کا لفظ استعمال فرمایا ھے،جس کا مطلب چُوکنا ھے،جس کو پنجابی میں تھُڑک جانا کہتے ھیں،،اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ھے،کوئی چیز یاد ھوتے ھوئے چُوک جانا ممکن ھے،،جج فیصلہ لکھنے میں چُوک سکتا ھے،اور اللہ پاک نے یہ دونوں لفظ سورہ طہ کی آیت نمبر 52 میں ساتھ ساتھ استعمال فرمائے ھیں،،لایضلُ ربی ولا ینسی” میرا رب نہ بھولتا ھے اور نہ چُوکتا ھے، جب دو رکنی بنچ بنایا جاتا ھے تو اس کا مقصد یہ ھی ھوتا ھے کہ اگر ایک پہلو کسی جج کی نظر سے اوجھل ھو گیا ھو تو دوسرے کی نظر میں آ سکتا ھے،،کیا دو ججوں کے فیصلے کو آدھا فیصلہ اور چار رکنی بنچ کے فیصلے کو چوتھائی فیصلہ کہا جا سکتا ھے،،؟ اسی طرح دو عورتوں کی گواھی کو آدھی گواھی نہیں کہا جا سکتا،پھر جو صورت اس آیت 282 میں بیان کی گئی ھے،کیا وہ دنیا کی کسی عدالت میں قابلِ قبول ھے،؟ کہیں بھی ایک گواہ دوسرے کو یا وکیل اپنے موکل کو گواھی کے دوران لقمہ دے سکتا ھے؟،،ایسی صورت میں گواھی مسترد ھو جاتی ھے ، مگر یہ میرے رب کی کریمی ھے کہ عورت کو آؤٹ آف وئے جا کر سہولت دی کہ اگر صورتحال کی نزاکت اور اپنی حیادار فطرت کی وجہ سے عورت بوکھلا جائے اور گواھی گڈ مڈ ھو جائے تو دوسری اسے سیدھے رستے پر لگا دے،اب اس مہربانی کو کچھ لوگوں نے زیادتی میں تبدیل کر دیا اور ھر معاملے میں عورت کی گواھی کو آدھا قرار دے کر ایک اصول بنا دیا اور پھر نبیﷺ کو بھی اس اصول کا پابند بنا رھے ھیں اور نبیﷺ کے دئے گئے فیصلوں کو اس اصول پر پیش کر کے رد کر رھے ھیں گویا کہ یہ اصول قرآن ھے،،اس کے لئے مسلم کی ایک حدیث پیش کی جاتی ھے کہ” نبی کریمﷺ نے عورتوں سے فرمایا کہ تم ناقص العقل اور ناقص الدین ھو” ناقص العقل اس لئے کہ تم بھول جاتی ھو اور تمہاری گواھی آدھی ھے،اور ناقص الدین اس لئے کہ ماھواری میں تم نماز نہیں پڑھ سکتیں” اب سوال یہ ھے کہ اللہ نے یہ تو فرمایا نہیں کہ للرجلِ شہادۃُ انثییں،،ایک مرد کی گواھی دو عورتوں کے برابر ھے،،، دوسرا کیا نبی کریمﷺ نہیں بھولے؟ ھر روز کئی بار پڑھی جانے والی نماز میں کبھی 4 رکعت کی بجائے 2 کے بعد سلام پھیر دیا اور اعتراض کرنے والے کو غصۜے سے ڈانٹ بھی دیا کہ نہ میں بھُولا ھوں اور نہ نماز کم ھوئی ھے،آخر صحابہؓ کی گواھی پر دوبارہ نماز پڑھائی ھے،،اور کبھی درمیان والی التحیات ھی بھول گئے اور تیسری رکعت کے لئے کھڑے ھو گئے،،پھر آپﷺ یہ بات کیسے کہہ سکتے تھے؟ رہ گئی دوسری بات کہ عورت کی عبادت چھوٹ جاتی ھے تو اس کا جواب اپنے آپ سے لے لیں کہ ایک آدمی 30 دن کام کر کے 2000 درھم تنخواہ لیتا ھے اور دوسرا 20 دن کام کر کے 2000 درھم تنخواہ لیتا ھےتو افضل کون ھے،عورت ان دنوں نماز نہ پڑھ کے ثواب لے رھی ھوتی ھے کیونکہ اللہ کا حکم مان رھی ھوتی ھے،ناقص الدین کیسے ھوگئ ؟ ثواب میں دونوں برابر ھیں نیز عورت ان معنوں میں افضل ھے کہ اسکی ان دنوں کی نمازیں پڑھے بغیر مقبول ھیں جبکہ جو باقی دنوں میں پڑھتی ھے اس کا فیصلہ قیامت کو ھو گا کہ قبول ھوئیں یا رد اور قبول ھوئیں تو کتنے فیصد !! ” سیدنا عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ اس نے ابو اہاب کی بیٹی سے نکاح کیا پھر اس کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا میں نے تم دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایا ہے پھر عقبہؓ نے کہا مجھے نہین معلوم کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہو اور نہ ہی تم نے مجھے پہلے خبر دی، پھر عقبہؓ نے سسرال کی طرف یہ ہی معلوم کرنے کے لیے پیغام بھیجا لیکن انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے پھر عقبہ نبی ۖﷺ کی طرف مدینہ میں آئے اور آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اب کیسے تم اکھٹے رہ سکتے ہو؟ جب کہ تمہارے متعلق یہ بات کہی گئی ہے پس عقبہؓ نے نبی ۖﷺکے حکم سے اپنی بیوی کو الگ کردیا اور اس نے دوسرے شوہر سے شادی کرلی۔( (رواہ بخاری فی کتاب الشھادت باب اذا شھد شاھد او شھود بشئی، رقم الحدیث 2640، ج1، ص:360) ، مجرد ایک نامعلوم بھیک مانگنے والی عورت کی گواھی پہ صحابی اور صحابیہ کا نکاح فسخ کر دیا گیا ،، یہ ھے ایک عورت کی گواھی ، اسی طرح بچے کے مردہ یا زندہ پیدا ھونے کی گواھی میں دائی کی گواھی کافی ھے ،،
دودھ کی گواھی میں آپ کو عورت کی گواھی کی قوت کا اندازہ تو ھو گیا ھو گا نیز کیا اپنے اسلام کے بارے میں کسی عورت کی شہادت قبول ھے یا وہ بھی دو عورتوں کو مل کر کہنا پڑے گا،،اشھدُ ان لا الہ الاۜ اللہ؟